شمس نوید عثمانی رحمتہ اللہ علیہ
گیان کی بات پریم سے کہو یعنی علمی بات محبت سے کہو۔ یہ مولانا شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک ایسی تعلیم تھی جسے وہ ہمارے سامنے بار بار اور بہت زیادہ دوہراتے تھے۔ میں نے محترم جناب سید عبد اللہ طارق صاحب کے حکم پر آپ کے لئے مولانا کے بارے میں یہ خاص مضمون لکھنا شروع کیا تو میں نے چاہا کہ میں شروع میں ہی ان کی ایک ایسی تعلیم پیش کردوں کہ اگر آپ یہ مضمون پورا نہ پڑھیں اور ان کی صرف ایک تعلیم پر بھی عمل کرلیں تو آپ کی زندگی پوری طرح بدل جائے۔
کسی عظیم بزرگ کی زندگی کے بارے میں جاننے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ان کی تعلیم کے نور سے ہماری زندگی روشن ہوجائے۔ آپ سے میری یہ التجا ہے کہ اگر آپ واقعی مولانا شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے نظریہ کو جاننا چاہتے ہیں اور ان کی خوبیوں کو پہچاننا چاہتے ہیں تو آپ صرف ایک دن آج کے دن گیان کی بات پریم سے کہیں۔ آپ کسی بلند شخصیت کو تب ہی سمجھ سکتے ہیں جب آپ بھی شعور کی اسی سطح پر جینے لگیں جس میں وہ جیتے تھے۔
آپ کے پاس صرف ایک دن، آج کا دن ہے۔ آپ کے پاس صرف ایک پل، 'اب کاپل' ہے جس میں آپ سانس لے رہے ہیں۔ آپ اس ایک پل میں سر سے پیر تک صرف پریم اور گیان بن جائیں، آپ سراپا علم و محبت بن جائیں۔ آپ ہر ایک سے بنا شرط محبت کریں۔ کوئی آپ کو بدلے میں شکریہ کہتا ہے یا نہیں، کوئی آپ کا دوست ہے یا دشمن ہے، کوئی امیر ہے یا غریب ہے، کوئی کس مذہب اور دین کا ماننے والا ہے؟ آپ یہ دیکھے بنا سب سے محبت کریں اور سب کو علم عطا کریں۔ اس سے آپ اپنے دل میں یہ محسوس کر سکیں گے کہ مولانا شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کیسے تھے!
مولانا شمس نوید عثمانی رحمہ اللہ علیہ سر سے پیر تک بس محبت ہی محبت تھے۔ وہ ہر ایک سے محبت کرتے تھے ۔یہ ان کی محبت ہی ہوتی تھی کہ وہ ہر ایک آدمی کو پہلی ملاقات میں ہی اپنی ساری زندگی کی کمائی یعنی متشابہاتی علم اور خودشناسی کی کنجی سونپ دیتے تھے۔ یہ متشابہاتی علم قرآن بائبل، وید، گیتا، گرو گرنتھ صاحب اور ہرایک دین کی مقدس کتابوں کا وہ علم ہے، جسے ذہنی تنگیوں کے ساتھ سمجھا گیا تو دنیا میں سیکڑوں دین ہونے کا بھرم پیدا ہوگیا۔ جس کی وجہ سے انسان کے ہاتھ سے انسان کا خون بہہ رہا ہے اور عورتوں کی آبرو لٹ رہی ہے۔ مولانا شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اس جنگ کو انسان کی خدا سے جنگ قرار دیتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ اس جنگ کو روکنے کے لئے ذہنی تنگیوں سے اور تعصب سے آزاد ہوکر اس راز کو سمجھنا ضروری ہے، جوتمام ادیان کی مقدس کتابوں میں ایک ہے۔ یہ راز اس نور کا بیان ہے جسے اللہ نے سب سے پہلے ظاہر کیا اور پھر اسی نور سے زمین وآسمان کی ہر چیز کو بنایا۔ وہ ہی ایک نور ہر چیز موجود ہے۔ وہ ہی نور ہندو میں ہے اور وہ ہی نور مسلم میں ہے۔ وہ ہی نور شودر میں ہے اور وہ ہی نور برہمن میں ہے۔ وہی نور آپ میں ہے اور وہ ہی نور مجھ میں ہے۔ یہ دور تک پھیلی ہوئی کائنات ایک سمندر ہے اور آپ اس سمندر کی ایک بوند ہیں۔ جب آپ خود کو اس روپ میں پہچانتے ہیں تو آپ خود کو کو اس کائنات کی ہر چیز کے ساتھ ساتھ جڑا ہوا پاتے ہیں۔ یہ معرفت کا ایک بلند مقام ہے، جسے ہندو فلسفے میں سہج یوگ کہتے ہیں۔ اس میں آپ کو اپنی وسعت کا شعور ہوتا ہے۔ یہ شعور انسان کو اندر اور باہر سے پوری طرح بدل دیتا ہے۔
مولانا شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مخاطب کو اپنی پہلی ملاقات میں ہی یہ شعور عطا کرتے تھے۔ وہ پہلی ملاقات میں ہی انسان کو بدلنا شروع کر دیتے تھے۔ انسان کے بدلاؤ شروعات اس کے نظریہ میں بدلاؤ سے ہوتی ہے۔ انسان کے دل کا نظریہ اس کے مادی حالات کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ نفس انسانی اور فطرت کے راز دانوں نے لکھا ہے کہ سب سے بڑا راز یہ ہے کہ آپ کے دل کے یقین اور گمان آپ کی زندگی کے حالات بن کر ظاہر ہو رہے ہیں۔
انسان کے ساتھ سب سے بڑی ٹریجڈی یہی ہے کہ یہ راز سب لوگ نہیں جانتے کہ ان کے اندر کی دنیا ہی انہیں باہر نظر آتی ہے۔ یہ بات زیادہ تر لوگ نہیں جانتے کہ ہر چیز اور ہر واقعہ ان کے یقین اور گمان پر اثر ڈالتا ہے اور ان کا یقین اور گمان ہر چیز اور ہر واقعے پر اثر ڈالتا ہے۔ جو چند لوگ سماج کو کنٹرول کرتے ہیں وہ ہی سماج کا نظریہ طے کرتے ہیں کہ سماج کے لوگ کیا سوچیں؟ اسی لئے زیادہ تر لوگ ایک بندھے ہوئے ڈھرے پر سوچتے ہیں
یہ ایک ذہنی غلامی ہے جس کا لوگوں کو علم نہیں ہے۔
وہ اپنے دل میں وہی
یقین اور گمان کرتے ہیں جو دوسرے ان کے لیے طے کرتے ہیں۔ وہ کبھی انہیں چیک نہیں کرتے کہ کیا یہ حق ہیں؟ کیا اس میں ان کی فلاح ہے؟
یہ ایک ذہنی غلامی ہے جس کا لوگوں کو علم نہیں ہے۔
وہ اپنے دل میں وہی
یقین اور گمان کرتے ہیں جو دوسرے ان کے لیے طے کرتے ہیں۔ وہ کبھی انہیں چیک نہیں کرتے کہ کیا یہ حق ہیں؟ کیا اس میں ان کی فلاح ہے؟
مولانا شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ سماج کے ڈھرے سے الگ سوچتے تھے۔ وہ ہمیشہ اپنے خیالات کو چیک کرتے تھے۔ جب وہ کسی خیال کو حق اور فلاح بخش پاتے تھے تب ہی وہ اس پر یقین کرتے تھے اور دوسروں کو بتاتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ جب عام لوگ دین کو مٹتا ہوا دیکھ رہے تھے تب مولانا شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نئی قوم کو دین میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے کہ علم و عرفان والے لوگ مندروں میں نماز پڑھ رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہر ایک پرانا مندر بھی ویسے ہی کعبہ کے رخ پر بنا ہوا ہے جیسے کہ مسجدیں بنی ہوئی ہیں۔ وہ جان چکے تھے کہ نماز فارسی اور سنسکرت کا لفظ ہے۔ جس کا معنی اجنمے پرمیشور کو سر جھکانا ہے۔ اجنمے کا مطلب ہے وہ ذات جو کسی ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوتی، جو ہمیشہ سے ہے۔ اس کی تعلیم گیتا کے چھٹے باب میں موجود ہے۔
مولانا شمس نوید عثمانی رحمتہ اللہ علیہ اپنے دل میں یہ منظر اتنا صاف اور زندہ دیکھتے تھے کہ جب وہ اس کا بیان کرتے تھے تو ان کے ساتھ ہم بھی اس منظر کو بالکل صاف دیکھتے تھے۔ اس طرح مولانا اپنے اور ہمارے دل کی قوت کو ایک نئی دنیا کی تعمیر میں لگاتے تھے جو کہ ابھی مستقبل کے بطن میں ہے لیکن ہمنے اس کی پیدائش کے درد کو مولانا کے چہرے پر دیکھا ہے۔
مولانا شمس نوید عثمانی رحمتہ اللہ علیہ اپنے دل میں یہ منظر اتنا صاف اور زندہ دیکھتے تھے کہ جب وہ اس کا بیان کرتے تھے تو ان کے ساتھ ہم بھی اس منظر کو بالکل صاف دیکھتے تھے۔ اس طرح مولانا اپنے اور ہمارے دل کی قوت کو ایک نئی دنیا کی تعمیر میں لگاتے تھے جو کہ ابھی مستقبل کے بطن میں ہے لیکن ہمنے اس کی پیدائش کے درد کو مولانا کے چہرے پر دیکھا ہے۔
ہمارا یہ یقین ہے کہ اپنے ٹھیک وقت پر جب ان کے دیکھے ہوئے واقعات اس مادی دنیا میں پیدا ہوں گے تب آپ سب انہیں باہر دیکھیں گے۔ آج کوانٹم فزکس ڈبل سلٹ ایکسپریمنٹ کے بعد یہ کہتی ہے کہ یونیورسل انرجی دیکھنے والے کی نگاہ کا اثر قبول کرتی ہے۔
جب مولانا وید کا متشابہاتی علم بتاتے تھے اور لوگ ان کی تعریف کرتے تھے تب مولانا بہت نرمی اور عاجزی سے کہتے تھے کہ میں وید کا گیانی نہیں ہوں مجھے ویدنا (درد دل) ہوتی ہے تو میں یہ سب آپ کو بتاتا ہوں۔ اس وقت ان کی آنکھیں نم ہوتی تھیں اور ان کے چہرے پر سچ مچ جو ویدنا دکھتی تھی۔ ایسے درد اور تڑپ کے حال میں جب وہ کسی سے کوئی بات کہتے تھے تو سننے والا چاہے جتنا بڑا گیان پنڈت ہوتا تھا، وہ ہمیشہ ان کی بات مانتا تھا۔ پنڈت رام شرما آچاریہ نے جب ان کی میگزین مارگدیپ پڑھی تو انہوں نے خط لکھ کر انہیں ملنے کے لیے ہری دوار بلایا مولانا نے مجھے بتایا کہ میں نے پنڈت جی سے کہا پنڈت جی آپ تو سب جانتے ہیں کیا آپ بھی میرا ساتھ نہیں دیں گے؟ یہ کہہ کر میں رو پڑا۔ مجھے روتا ہوا دیکھ کر پنڈت جی اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے اور انہوں نے مجھ سے کہا مولانا آپ کام کیجئے میں آپ کا ساتھ دوں گا۔ اس کے بعد شرک کے رد میں اور توحید کی تائید میں انکی میگزین اکھنڈ جیوتی میں انکے مضمون آنے لگے۔ انہوں نے اسلام کی تعریف میں بھی کیء مضمون لکھے۔ جن سے سماج کے سامنے حق آنے لگا تھا۔ ایسا تب تک ہوا جب تک یہ مشہور نہ ہو گیا کہ پنڈت جی نے ریاضت کے لئے سمادھی لے لی ہے۔ جو لوگ مولانا کی کتابیں پڑھ چکے ہیں یا امن اور محبت کے تربیتی کیمپ کر چکے ہیں وہ یہ جان چکے ہیں کہ سب لوگوں کو 'کیا' بتانا ہے؟ اس واقعے سے آپ اب یہ بھی جان سکتے ہیں کہ مولانا ان باتوں کو 'کیسے' بتاتے تھے؟ ۔۔۔ اور کہیں کہیں تو صرف ایک ہی لائن بولتے تھے اور سننے والا مولانا کے ساتھ جڑ جاتا تھا۔ مولانا دل سے بتاتے تھے جس کی وجہ سے وہ بات سننے والے کے دل میں اتر جاتی تھی میں دینی اور فلاحی کام کرنے والے سبھی بھائیوں بہنوں سے التجا کرتا ہوں کہ آپ سبھی دل سے بتانے کے اس طریقہ کی خوب اچھی طرح پریکٹس کر لیں۔ جب ایک بات دلیل کے ساتھ بتائی جاتی ہے تو وہ عقل کو اپیل کرتی ہے جو کہ پورے مائنڈ کا صرف دسواں حصہ ہے۔ جب اسی بات کو جذباتی ہوکر کہا جاتا ہے تو سننے والے کے دل میں جذبات کی لہریں اٹھنے لگتی ہیں اور اس کا دل حرکت میں آجاتا ہے۔ ایموشنل مائنڈ عقل سے نو گنا زیادہ ہوتا ہے۔ جب ایک دلیل کو جذبات کے ساتھ بتایا جاتا ہے تو وہ کہنے والے کے پورے وجود سے نکلتی ہے اور سننے والے کے پورے وجود میں سما جاتی ہے۔ اسی کو عام زبان میں دل جیتنا یا تسخیرالقلوب کہتے ہیں۔ یہ ایک فن ہوتا ہے۔ اسے سیکھا اور سکھایا جا سکتا ہے۔ مولانا اس فن کے بہترین ماہر تھے۔ وہ اپنے شاگردوں کو اس کی تعلیم دیتے تھے اور اسے کرکے بھی دکھاتے تھے۔
دلیل سے صحیح غلط سوچنے والے ذہن کو مردانہ ذہن اور جذباتی ذہن کو زنانہ ذہن کہتے ہیں۔ انہیں کو شعور (conscious mind) اور تحت الشعور (conscious mind) بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک ہی ذہن کے دو پہلو ہیں۔ جب زنانہ ذہن اور مردانہ ذہن دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تال میل میں کام کرتے ہیں تو خرق عادت اور چمتکار ہوتے ہیں۔ مردانہ ذہن نفع و نقصان کو اور صحیح و غلط کو تول کر فیصلہ لیتا ہے۔ یہ دلیل اور تجربات کی بنیاد پر بھی یقین تک پہنچتا ہے اور بہتر کا انتخاب کرتا ہے۔ اس کے یقین کو زنانہ ذہن قبول کرتا ہے جیسے کہ سمندری جہاز کے کپتان کا حکم اس کی ماتحت ٹیم قبول کرتی ہے۔ مردانہ ذہن کا انتخاب اور یقین زندگی کی سمت طے کرتا ہے۔
زنانہ ذہن تخلیقی ذہن ہے۔ یہ مردانہ ذہن کے یقین کو نطفہ کی طرح قبول کرتا ہے۔ یہ ایک حاملہ عورت کی طرح عمل کرتا ہے۔ جیسے ایک مدت بعد حاملہ عورت بچے کو جنم دیتی ہے، ویسے ہی زنانہ ذہن زندگی میں ان حالات اور واقعات کو جنم دیتا ہے جو مردانہ ذہن کے یقین کا آئینہ ہوتے ہیں۔ جو لوگ اپنے ذہن کے زنانہ اور مردانہ پہلو میں تال میل بیٹھا کر کام کرتے ہیں وہ دنیا کی سمت اور حالت بدل دیتے ہیں۔ انکا یقین ان کی زندگی میں اور ان کے گزرنے کے بعد بھی لگاتار اثر ڈالتا رہتا ہے اور دنیا کے حالات ان کے نظریہ کی مطابقت میں خود بدلتے رہتے ہیں۔ صوفی لوگ ایسے عظیم انسان کو اہل یقین بولتے ہیں۔ مولانا شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسے ہی اہل یقین مومن تھے۔
مولانا شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نےصوفی سلسلے کی تعلیم اپنے چاچا حضور سے لی تھی۔ وہ صوفی طریقے سے ذکر اللہ کی پابندی ہمیشہ کرتے تھے۔ ایک بار مولانا نے مجھ سے کہا کہ میرے شیخ نے مجھے ذکر کی جو تعلیم دی تھی میں نے اسے زندگی میں ایک دن بھی قضا نہ کیا۔
صوفی سلسلہ کا سب سے آخری سبق اللہ کے ساتھ ہو نے کا مراقبہ کرنا ہے تاکہ دل میں یہ یقین جم جائے یے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ کچھ ہفتے لگاتار یہ مراقبہ کرنے سے آدمی کے دل سے غفلت دور ہوجاتی ہے اور اسے بنا کوشش کیے بھی ہمیشہ یہ ہوش رہتا ہے کہ اللہ میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے رحمت کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ اس یقین کے دل میں جمنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب انسان سوتا ہے تب بھی اس کا دل جاگتا رہتا ہے۔ اس کے دل میں اس حقیقت کا احساس سونے کے بعد بھی قائم رہتا ہے۔ جب یہ ہوش دل میں قائم ہو جاتا ہے تو صوفی سلسلے میں انسان کو اللہ کی ولایت نصیب ہوجاتی ہے۔ اب اسے دوسرے غافل انسانوں کو ہوش مند بنانے کی تعلیم دینے کے لائق مانا جاتا ہے۔
میں نے مولانا کو برسوں خوشی اور غم کے حالات میں دیکھا ہے۔ میں نے انہیں کبھی ایک لمحہ کے لئے غافل نہ دیکھا۔ ہمیشہ انہیں باہوش دیکھا۔ میں نے انہیں ہمیشہ ذکر اور فرمابرداری، دعوت اور تبلیغ، خدمت اور بھلائی کے کاموں میں لگے ہوئے دیکھا۔ جو وہ صرف اللہ کی رضا کے لئے کرتے تھے۔ ان کے پاس جانے کے بعد ہمارے دل سے غفلت دور ہو جاتی تھی۔ وہ اپنے پاس آنے والوں کی تعلیم ولایت کے سبق سے شروع کرتے تھے۔ صوفی سلسلے میں جو سبق آخری ہے، وہ انکا پہلا سبق ہوتا تھا۔ مراقبہ کا جو طریقہ وہ بتاتے تھے، وہ بھی صوفی سلسلوں کے مروجہ طریقوں سے الگ ہے۔ اس کے لیے وہ قرآن اور سجدے کے ذریعے باہوش ہونا سکھاتے تھے۔
مولانا قرآن مجید کی کچھ آیتیں پڑھتے تھے، جن میں اللہ کی رحمت اور قدرت کا بیان ہے کہ وہ ہمیشہ ہمارے کام بناتا ہے اور اسی نے ہمیں ماں کے رحم میں بنایا ہے۔ وہ یہ آیت ہمیشہ پڑھتے تھے: یعنی وہ ہی ہے جس نے تمہاری ماؤں کے رحم میں تمہیں جیسا چاہا بنایا۔
پھرمولانا جذب اور کیفیت کے ساتھ ان آیتوں کی جو تشریح کرتے تھے وہ صرف وہ ہی کرسکتے تھے۔ ویسی تشریح میں نے ان سے پہلے نہ کبھی سنی تھی اور نہ ہی انکے بعد پھر کسی سے سنی۔ مولانا کہتے تھے کہ جب تم اپنی ماں کے رحم میں بن رہے تھے، تب بھی وہ اللہ تمہارے ساتھ تھا اور وہ تمہارے ساتھ اب بھی ہے۔ وہ ہی رات کو تمہیں سانس دلاتا ہے، وہ ہی تمہاری کروٹیں بدلتا ہے اور جب تم مر جاؤ گے تو وہ تمہارے ساتھ قبر میں بھی رہے گا۔
قرآنی آیتوں کی اس انوکھی تشریح کی ایک خاصیت یہ ہوتی تھی کہ مولانا اس میں وید کے منتر اور گیتا کے شلوک بول کر ان کی بھی تشریح کر تے تھے۔ اس طرح ان کے بول ایک ہی وقت میں قرآن کی تفسیر ہوتے تھے، وید کا بھاشیہ ہوتے تھے اور گیتا کی ٹیکا بھی ہوتے تھے۔ جب ان کی مجلس میں صرف مسلم ہی ہوتے تھے وہ تب بھی یہی کرتے تھے۔ جب ان کی مجلس میں ہر مذہب کے لوگ ہوتے تھے وہ تب بھی یہی باتیں کہتے تھے۔ جب ان کے مجلس میں سو لوگ ہوتے تھے وہ تب بھی یہی کہتے تھے اور جب ان کے ساتھ صرف میں اکیلا شاگرد ہوتا تھا تب بھی وہ ایسا ہی کرتے تھے۔ وہ جب اس آیت کو پڑھتے تھے تو وہ وید منتر کا یہ ٹکڑا بھی پڑھتے تھے: ستیش چتر شروستمہ یعنی سچی تصویر وہ ہے جو سنتی ہے۔
مولانا شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے تھے کہ تم سچی تصویر ہو کیونکہ تم سن سکتے ہو۔ تم خدا کی بنائی ہوئی مورتی ہو، اس لیے تم خدا کی مورتی ہو۔ تم خود کو دیکھو اور اپنے بنانے والے مصور کو پہچانو۔ جو مورتی تم بناتے ہو وہ بے جان مورتی ہے۔ وہ تمہاری مورتی ہے، وہ جھوٹی مورتی ہے کیونکہ وہ سن نہیں سکتی۔ اپنی بنائی ہوئی جھوٹی مورتیوں کو چھوڑو اور خدا کی بنائی ہوئی سچی مورتی کو دیکھو۔ خود کو دیکھو۔ تم خدا کی سچی مورتی ہو۔ تمہیں اس خدا کی مورتی دیکھنی ہے تو اپنے آپ کو دیکھو۔ خود شناسی کے لئے وہ ہمیں سجدہ کرنا سکھاتے تھے، جسے سنسکرت میں ساشٹانگ کہتے ہیں۔ وہ گیتا کا ایک شلوک پڑھتے تھے۔
سمم کاےء شروگر یوم دھارین چلم استھرہ۔
سمپریکشیہ ناسکاگرم سوم دشش چا نو لوکین۔
گیتا 6:13
یعنی اپنے جسم، سر اور گردن کو ہموار کرکے بنا ہلے ڈلے قائم ہوکر اپنی ناک کے اگلے حصے کو دیکھو جب دوسری سمتوں میں نہ دکھے۔
گیتا کہ جتنے مفسر ہوئے ہیں، ان میں سے آج تک کسی کا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ 'سمپریکشیہ ناسکاگرم سوم' یعنی اپنی ناک کے اگلے حصے کو دیکھنے کے لئے سجدہ کی حالت سب سے زیادہ صحیح، آسان اور اثردار ہے۔
اس وقت وہ اللہ کی محبت کا احساس کرکے رو رہے ہوتے تھے۔ سب کی آنکھوں میں نمی اور دل میں نرمی ہوتی تھی۔ دل بھی ایک الیکٹرونک مشین کی طرح ہے۔ جیسے ایک موبائل دوسرے موبائلوں سے کنیکٹ ہوکر اپنا ڈیٹا ان میں ٹرانسفر کر دیتا ہے۔ ویسے ہی مولانا اپنے دل کو دوسروں کے دلوں سے کنیکٹ کر کے اپنے خیالات اور جذبات ان میں ٹرانسفر کر تے تھے۔ سب کے دل اللہ کی محبت سے بھر جاتے تھے۔ جو حال مولانا کے دل کا ہوتا تھا، وہ ہی سب کے دلوں کا ہوجاتا تھا۔ ہم سب اسی پل محسوس کرتے تھے کہ ہاں، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس پل ہمارا دل خوشی اور سکون سے بھر جاتا تھا اور وہ ڈر اور غم سے آزاد ہو جاتا تھا۔ ہمیں لگتا تھا کہ ہمارا دل جنت میں ہے۔
سو میرے بندوں میں داخل ہو جا اور داخل ہو جائے میری جنت میں۔
قرآن مجید 30-88:29
مولانا کی صحبت میں داخل ہونے کے بعد اللہ کے اس حکم کا مطلب سمجھ میں آ جاتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنتیں دو ہیں، جن کا ذکر سورہ رحمن آیت نمبر 46 میں ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی مثال انگور کی سچی بیل سے دی ہے:
میں انگور کی سچی بیل ہوں۔
یوحنا 15:1
مولانا شمس نوید عثمانی رحمہ اللہ علیہ رامپور کے انگوری باغ محلے میں رہتے تھے انگوری باغ نام خود اپنا معنی ظاہر کر رہا ہے۔ مولانا رامپور لفظ کا ترجمہ جنت کرتے تھے۔ یہ قدرت کا ایک پوشیدہ راز ہے کہ آپ جس نظر سے چیزوں کوی دیکھتے ہیں، وہ آپ کے لئے اسی شکل میں میں ڈھل جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان خود ایک پیڑ ہے۔ سانس لینا، غذا کو جذب کرنا، فضلہ خارج کرنا اور نسل بڑھانا، جو کچھ پیڑ میں ہے وہ سب انسان میں ہے۔ رب پر ایمان رکھنے والے مومن عمدہ پھل دینے والے پیڑ ہیں۔ یہ چلتے پھرتے پھل دار سایہ دار پیڑ ہمیں اسی دنیا میں نصیب ہیں۔ مولانا کے سائے میں بیٹھ کر ہمیں ایسا لگتا تھا جیسے رب نے اپنی جنت ہمارے قریب کردی ہو۔ تب یہ دنیا اور دنیا کی زندگی ہمارے لیے ایک نیا معنی، ایک نئی ذمہ داری بن جاتی تھی۔ جب ہمارا نظریہ بدلتا ہے تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ مائنڈ سائنس اسے پیراڈائم یعنی شاکلہ بدلنا کہتی ہے۔ قرآن میں آتا ہے کہ ہر انسان اپنے شاکلہ کے مطابق ہی عمل کرتا ہے۔ شاکلہ بدلنے سے انسان کے اعمال بدل جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس میں ہمیں ظاہری طور پر بتکلف 'کچھ کرنا' نہیں پڑتا بلکہ قانون قدرت کے مطابق عمل خود بآسانی ہو جاتا ہے۔ جب ایک انسان کا شاکلہ بدل جاتا ہے تو پھر اس سے ویسے ہی اعمال خود صادر ہوتے ہیں جیسا کہ اس کا شاکلہ ہوتا ہے۔ جیسے کہ ایک جھگڑالو آدمی کے جھگڑے خود ہوتے رہتے ہیں اور جھگڑے ٹالنے کے لیے اسے بتکلف کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ہر ایک انسان کا شاکلہ ہی طے کرتا ہے کہ وہ کیا کرے گا!
ہوش اور غور و فکر (شعوری حضوری) کے ساتھ کیا گیا ایک سجدہ آپ کو ان ہزار مقامات سے اوپر اٹھاتا ہے جہاں آپ اپنے آپ کو تنہا اور کمزور سمجھکر جھکے ہوئے ہیں۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
-علامہ اقبال۔
جب مولانا شمس نوید عثمانی رحمتہ اللہ علیہ سجدہ (یعنی ساشٹانگ) کی تعلیم دیتے تھے ، تو وہ ایسا نہیں کرتے تھے ، جیسا کہ ہمیں نماز سکھانے والے عالم کرتے ہیں کہ بس سجدہ کرکے دکھا دیتے ہیں اور ہمیں زندگی بھر اس معرفت اور قربت کے احساس سے محروم کردیتے ہیں جو سجدے کے وقت ہمارے دل میں ہونا ضروری ہے۔ اگر وہ ہوتا تو آج ہمیں سجدے میں زیادہ لطف اور اور قرب مل رہا ہوتا۔ ہم زیادہ طاقتور ہوتے۔ ہم اپنے حالات سے ہارنے کے بجائے ان پر غالب آجاتے۔
مولانا سجدہ کرنے سے پہلے کھڑے ہوکر بتاتے تھے کہ جسم کی حرکتیں بھی ایک زبان ہیں۔ ہم اپنے بدن کی حرکتوں کے ذریعہ بھی اپنے رب سے بہت کچھ کہتے ہیں۔ جب ہم اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو ہم اپنے کھڑے ہونے سے کہتے ہیں کہ آپ نے جو احکامات مجھے دیے ہیں، ان کی تعمیل کے لئے میں کھڑا ہوں۔ میں انہیں اپنی طاقت سے نہیں ، بلکہ آپ کی طاقت اور صرف آپ کی مدد سے ہی کرسکتا ہوں۔
پھر وہ گھٹنے زمین پر رکھ کر وضاحت کرتے تھے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنی چلنے کی طاقت آپکے سپرد کرتا ہوں ، کہ میں کبھی غلط راستے پر نہیں چلوں گا ، میں ہمیشہ آپ کے ہدایت کیے ہوئے راستہ پر چلوں گا۔ پھر وہ اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھکر کہتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ کو اپنی کرنے کی طاقت سپرد کرتا ہوں۔ میں ان ہاتھوں سے کبھی کوئی غلط کام نہیں کروں گا۔ میں ہمیشہ اپنے ہاتھوں سے بھلائی کے کام کروں گا۔
جب ہم اپنے رب کے سامنے زمین پر اپنی ناک رکھتے ہیں تو ہم اپنے تکبر کو اس کے حوالے کرتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو بڑا نہ سمجھینگے۔ جو ہمیں تجھ سے الگ کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم تجھے بھول جاتے ہیں کہ تو نے ہی ہمیں پیدا کیا ہے اور تو ہمارے ساتھ ہے۔
پھر جب مولانا زمین پر اپنا ماتھا رکھتے تھے تو کہتے تھے کہ ایسا کرکے ہم اپنے رب سے کہتے ہیں کہ میں اپنی عقل اور اپنا علم تیرے حوالے کرتا ہوں۔ میں ان پر نہیں بلکہ تیرے سچے علم پر چلوں گا جو تو نے نبیوں پر نازل کیا اور جسے رشیوں نے بھی بتایا ہے۔ میں تیرا فرمانبردار ہوں۔ میں تیرے حکم کے سامنے اپنا سر جھکاتا ہوں۔ اب وہ سجدے میں جا کر اپنے رب کی تسبیح کرتے تھے:
سبحان ربی الاعلی,
سبحان ربی الاعلی,
سبحان ربی الاعلی،
سبحان ربی الاعلی۔
اور وہ ہندی میں اس کا بہت دلکش ترجمہ بھی کر دیتے تھے یعنی جے ہو مھاپربھو۔ وہ ایسے ہی اپنے درس میں ضرورت کے مطابق مسلسل اردو۔ہندی انگلش عربی فارسی سنسکرت اور دوسری زبانوں کے الفاظ بہت خوبصورتی سے استعمال کرتے تھے۔
اس حالت تک پہنچنے کے بعد ، مولانا ہمیں بتاتے تھے ، اس کا مطلب ہے کہ اے خدا! میں نے دنیا کی ہر چیز سے اپنی نظر ہٹا لی ہے اور تجھ پر جما دی ہے۔
گیتا کے چھٹے باب کے تیرہویں منتر میں کہا گیا ہے کہ جب کسی سمت میں مشاہدہ نہ ہو، ایسی حالت میں اپنی ناک کے اگلے حصے پر دھیان جماؤ۔ آپ ایسا کرتے ہیں تو ، آپ دیکھیں گے کہ سانس خود اندر جا رہا ہے اور پھر وہ خود ہی باہر آرہا ہے۔ آپ کچھ دیر اس آتے اور جاتے ہوئے سانس کو دیکھتے رہیں۔ سانس خود آ رہا ہے اور وہ خود ہی نکل رہا ہے۔ آپ کی زندگی اسی سانس کے ساتھ چل رہی ہے۔ آپ اسی سانس سے پل رہے ہیں۔ وہ ہی خدا ہے جو اس سانس کے ساتھ آپکو پال رہا ہے۔ وہ اس لمحہ بھی آپ کے ساتھ ہے۔
سجدہ سے سر اٹھاکر مولانا اپنی بات کہتے تھے اور پھر سجدے میں سر رکھ کر سب کو یہ سکھاتے تھے کہ ناک پر دھیان جماکر کیسے محسوس کرنا ہے کہ میرا رب میرے ساتھ ہے۔
مولانا یہ بھی کہتے تھے کہ گود میں ماں نے دودھ پلایا اور بڑے ہوکر والد کی کمائی ہوئی روٹی کھائی ہے۔ انھیں دیکھ کر آدمی سوچ سکتا ہے کہ میری والدہ نے مجھے پالا ہے ، میرے والد نے مجھے پالا ہے ، لیکن جب آپ اپنی سانسوں پر دھیان دینگے تو آپ کو یقین آ جائیگا کہ میرا رب مجھے پال رہا ہے۔ اسی نے میرے والدین کے دل میں میری محبت ڈال دی تھی کہ انہوں نے مجھے محبت اور شفقت سے پالا۔
وہ صرف سجدے پر اتنا علم دیتے تھے کہ اگر اسے لکھا جاتا تو دس کتابیں تیار ہوجاتیں۔ میں دس کتابیں بہت کم کہہ رہا ہوں تاکہ لوگوں کو مبالغہ نہ لگے ، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر مولانا کی ہر مجلس کی باتیں لکھی جاتیں تو تین چار ہزار کتابیں تیار ہو جاتیں۔ ان کی عام مجلسیں بھی گہرے محکماتی اور متشابہاتی علم سے معمور ہوتی تھیں ، اور جب وہ قرآن مجید کا درس دیتے تھے تو اس کی گہرائی کتنی زیادہ بڑھ جاتی تھی، اسے بتانے کے لئے الفاظ کافی نہیں ہیں۔
جب میں ان سے ملا ، تو میں 15 سالہ نوعمر تھا۔ میں مولانا کی باتیں بہت اپنے گھر کے علمی اور ادبی ماحول کی وجہ سے اچھی طرح سنتا اور سمجھتا تھا لیکن جیسے جیسے میں خود قرآن ، بائبل ، وید ، گیتا ، سائنس ، فلسفہ ، سیلف ہیلپ لٹریچر اور مشرق اور مغرب کے مصنفین کی کتابیں پڑھتا گیا تو مجھے مولانا کے کلام کے دوسرے اسرار بھی نظر آنے لگے۔ جنہیں میں پہلے نہ جانتا تھا۔
میں نے جانا کہ سبھی ملکوں کے اور سبھی ادیان و فلسفوں اور تہذیبوں کے لوگوں کے مسلوں کے پیچھے حقیقت میں سب سے بڑا مسئلہ 'اپنے کاموں میں مدد پانے کا مسئلہ' ہے۔ ہر آدمی میں کی کی کی طاقت کی کی ایک حد ہے۔ جب وہ حد آ جاتی ہے اور وہ آدمی روٹی کپڑا مکان دوا تعلیم اور زندگی کا ہمسفر حاصل نہیں کر پاتا یا وہ ظالموں کے سامنے خود کو بے بس دیکھتا ہے یا وہ اپنی زندگی میں ایسی ہی کسی مصیبت کو دعوت دے بیٹھتا ہے تو وہ اس کے حل کے لیے 'غیبی مدد' پانا چاہتا ہے۔
سیلف ہیلپ کے تمام بڑے گرو اس بات پر متفق ہیں کہ انسان اپنے کاموں میں غیبی مدد حاصل کرسکتا ہے ، صرف یہ شرط ہے کہ وہ اپنے منبع سے ، اپنے خالق سے جڑ جائے۔ اس کے لئے ہر ایک لائف کوچ مختلف تکنیک سکھاتا ہے۔ جب میں نے ابراہیم ہکس سے لے کر سائنسدان نیل ڈونالڈ والش تک سیکڑوں ماہرین کی تکنیکیں پڑھیں تو مجھے معلوم ہوا کہ اپنے خالق سے جڑنے کے لئے مولانا کا سکھایا ہوا سجدے کا یہ عارفانہ طریقہ ان سب تکنیکوں سے زیادہ موثر اور آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہر ملک ، ہر دور اور ہر مذہب کی کتاب میں پایا جاتا ہے۔
مولانا سجدے میں جا کر اپنے رب سے اپنے کام میں مدد کی دعا کرتے تھے۔ ان کا کام کیا تھا؟ ان کا کام تھا لوگوں کو بھلائی کی سیدھی راہ دکھانا۔ اپنے جان مال اور وقت سے ان کی بھلائی کرنا اور ان کی راحت اور سلامتی کے لئے اور ان کے مسائل حل ہونے کے لیے دعا کرنا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔ آج ہر ایک دین و مذہب کے آدمی کے سامنے دعا کا قبول ہونا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ آج مسلموں کے سامنے بھی یہ مسئلہ ہے کہ وہ اپنے مسئلے حل ہونے کے لئے دعا کرتے ہیں لیکن زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے جڑے ہوئے مسئلہ بھی اکثر حل نہیں ہو پاتے۔ مولانا کی تعلیم ایسے سب لوگوں کا مسئلہ حل کر سکتی ہے۔ اب ہر انسان اپنی بھلائی کی دعا کر سکتا ہے اور اس کے جواب میں وہ غیبی مدد پا سکتا ہے۔
مولانا نے ایک عید کی رات میں اپنے رب سے دعا کی کہ مجھے مددگار دے۔ رب نے ان کی دعا اسی وقت قبول کی اور اسنے اگلے ہی دن ان کی دعا کا جواب اس طرح دیا کہ سید عبداللہ طارق صاحب خود ان کے گھر عید ملنے کے لئے پہنچ گئے۔ وہ انہیں پہلے سے جانتے تھے لیکن اس دن مولانا کی باتوں سے ان کے دو ایسے سوال حل ہوئے جن کے جواب وہ تلاش رہے تھے۔ مولانا کی گفتگو میں اپنا سوال پوچھے بغیر ہی خود بخود ان کے دونوں سوال حل ہوگئے، الحمدللہ۔
محترم سید عبداللہ طارق صاحب مولانا شمس نوید عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے علم و عرفان سے اس درجہ متاثر ہوگئے کہ وہ ان کے مشن سے جڑ گئے۔ انہوں نے مولانا کے لیکچرز کو ریکارڈ کیا۔ مولانا نے جو حوالےدیئے تھے، ان سب حوالوں کو چیک کیا۔ ان کی ریسرچ کو تحریر کیا۔ دہلی کے ایک اخبار کا ایڈیٹر کافی حیل و حجت اور سوال جواب کے بعد اسے شائع کرنے پر راضی ہوگیا۔ اس نے یہ ریسرچ ایک سیریز میں پیش کی۔ اسی ایڈیٹر نے اس سیریز کو 'اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔' کا عنوان دیا۔ یہ بہت مشہور ہوئی۔ لوگوں نے اس سیریز کو کتابی شکل دینے کی مانگ کی۔ محترم سید عبداللہ طارق صاحب نے ایک بار پھر مولانا کی تحقیق کو کتابی شکل میں بہت خوبصورتی سے پیش کیا۔ یہ کتاب اب بر صغیر ہند میں بہت مقبول ہوئی۔ بہت جلدی یہ پوری دنیا کے اردو حلقہ میں پڑھی جانے والی ایک ایسی کتاب بن گئی جو لوگوں کو مستقبل کے بارے میں اچھی امیدیں دلاتی ہے۔ اس کتاب کی طباعت میں ہے سید عبد اللہ طارق صاحب نے اپنا ذاتی مال خرچ کیا۔ مولانا کے دوسرے شاگردوں اور ساتھیوں نے بھی اپنی استطاعت کے مطابق اس میں اپنی جان مال اور وقت لگا کر حصہ لیا۔ زیادہ مال سید عبداللہ طرف صاحب نے ہی لگایا تھا۔ اس کے بعد طارق صاحب نے نے ہندی اور اردو میں بھی مولانا کی فکر کو پیش کیا اور اس میں ان کے دو لاکھ روپے سے زائد خرچ ہو گئے، جو انہوں نے کبھی واپس نہیں لیے۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ وہ اور ان کے ساتھی اپنا مال راہ خدا میں اور زیادہ لگاتے گئے۔ سید عبداللہ طارق صاحب پہلے کی طرح آج بھی مولانا کے مشن کے ترجمان بن کر مولانا کے کام میں مددگار بنے ہوئے ہیں اور بدستور اپنا جان مال اور وقت لگا رہے ہیں۔ یہ مولانا کی دعا قبول ہونے کا وہ ثبوت ہے جسے آپ سب آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مولانا کہتے تھے کہ تارق میری عیدی ہے۔ اللہ نے مجھے طارق کو عید کے دن دیا، اس لیے وہ میری عیدی ہے۔
مولانا کی دعا کی قبولیت کا ایک واقعہ طارق صاحب کی بیماری سے متعلق ہے۔ ایک بار ایک خطرناک بیماری ان پر اتنا زیادہ حملہ آور ہوئی کہ انکی جان کو خطرہ ہو گیا۔ مولانا کو پتہ چلا تو انہوں نے اپنے مخصوص طریقہ سے طارق صاحب کی شفا کے لئے اللہ تعالی سے دعا کی اور اگلے ہی دن سے انکی بیماری گھٹنے لگی، الحمدللہ۔
ایسے بے شمار سچے واقعات ہیں. ان سب کو جمع کیا جائے تو تین چار کتابیں تیار ہوجائیگی۔ سب لوگ یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ کیا کرنے سے دعا قبول ہوتی ہے اور ہر مراد
پوری ہوتی ہے؟
پوری ہوتی ہے؟
Comments
Post a Comment